بلوچستان: دہکتے کوئلوں پر چلنے کی سزا چربیلی کی رسم کیا ہے؟
بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ، جس میں کئی افراد کو دہکتے کوئلوں پر چلنے کی مبینہ سزا دی گئی، نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس واقعے میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔ اسی واقعے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان کی ایک قدیم رسم ’چربیلی‘ زیرِ بحث آگئی ہے—ایسی رسم جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، مگر جس کے اثرات بعض اوقات جسمانی اور ذہنی طور پر نہایت تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں دہکتے کوئلوں پر چلنے کی رسم۔چھ افراد گرفتار
چربیلی بلوچستان کے چند قبائلی علاقوں میں رائج ایک قدیم روایتی عمل ہے جو زیادہ تر جھگڑوں، دشمنیوں یا معاشرتی تنازعات کے حل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس رسم کا بنیادی مقصد کسی شخص کی سچائی یا جھوٹ کی آزمائش مانا جاتا ہے۔ رسم میں کبھی دہکتے کوئلے، کبھی آگ کی راکھ، یا کبھی گرم لوہے کا استعمال ہوتا ہے۔ جس فرد پر الزام ہو، اسے یہ عمل انجام دینا پڑتا ہے اور قبیلے کے بزرگ اس فیصلے کی نگرانی کرتے ہیں۔ اگر وہ شخص جلنے کے نشانات سے محفوظ رہے تو اسے سچا مان لیا جاتا ہے، اور اگر وہ زخمی ہوجائے تو اسے جھوٹا قرار دیا جاتا ہے۔
اگرچہ بظاہر یہ روایتی انصاف کا طریقہ ہے، مگر حقیقت میں یہ عمل انسانی جسم اور ذہن دونوں پر شدید نقصان دہ اثرات چھوڑتا ہے۔
نوکنڈی میں حالیہ واقعہ.اصل میں ہوا کیا؟
نوکنڈی میں پیش آنے والے واقعے میں کئی نوجوانوں کو مبینہ طور پر دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلنے پر مجبور کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ متعدد افراد شدید تکلیف میں ہیں اور ان کے پاؤں پر گہرے زخم دکھائی دیتے ہیں۔پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ یہ سب کسی قبائلی جھگڑے یا اندرونی تنازعے کے نتیجے میں ہوا۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث چھ افراد کو گرفتار کرلیا ہے اور مزید ذمہ داران کی تلاش جاری ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بلوچستان میں ایسے معاملات عموماً زبانی فیصلوں اور مقامی جرگے کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں، مگر جب یہ روایات تشدد میں بدل جائیں تو ریاستی قانون لازمی طور پر حرکت میں آتا ہے۔ یہ رسم تشدد میں کیوں بدل جاتی ہے؟
سماجی دباؤ یا روایت؟ چربیلی کے واقعے نے بلوچستان میں انسانی حقوق پر نئی بحث چھیڑ دی
بلوچستان جیسے روایتی معاشروں میں قبائلی فیصلے اب بھی اثر رکھتے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان رسومات میں سختی بڑھتی گئی ہے۔ چربیلی کا مقصد ابتدا میں شاید محض علامتی آزمائش تھا، مگر اب بعض مقامات پر اسے دباؤ ڈالنے، سزا دینے یا سماجی شرمندگی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ بعض اوقات نوجوان نسل پر اس رسم کو زبردستی لاگو کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ اسے عزت یا غیرت کا حصہ سمجھتے ہیں۔بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس سے سچائی فوری ثابت ہوجائے گی۔مگر جدید تحقیق اور انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق، ایسی رسومات انسانی وقار کے خلاف ہیں۔قانونی حیثیت۔آیا یہ جرم ہے؟پاکستان کے قانون کے مطابق۔کسی شخص پر جسمانی تشدد کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔کسی کو زبردستی خطرناک عمل کروانا اغوا اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔اس طرح کی روایات پر قانونی کارروائی لازم ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ نوکنڈی میں ہونے والا یہ واقعہ مکمل طور پر قانونی حدود سے باہر تھا۔ متاثرین کے بیانات اور طبی رپورٹس کے بعد زیادہ سنگین دفعات شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
سماجی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
سماجی ماہرین کے مطابق، ایسی رسومات کی وجہ بنیادی طور پر تین ہیں:تعلیمی کمی قانون تک محدود رسائی قبائلی دباؤ اور خوف کئی علاقوں میں لوگ اب بھی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ روایت کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کی سماجی حیثیت متاثر ہوگی۔ یہی خوف کبھی کبھی خطرناک رسومات کو زندہ رکھتا ہے۔ اگر حکومت مقامی سردار، مذہبی رہنما اور سماجی تنظیمیں مل کر کام کریں تو اس طرح کی رسومات ختم کی جاسکتی ہیں۔ کئی علاقوں میں اب روایات کے جدید متبادل رائج ہو رہے ہیں، مگر ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔
بلوچستان کی متنازع روای چربیلی۔کب، کیسے اور کیوں انجام دی جاتی ہے؟
آگے کا راستہ کیا ہے متاثرین کو مکمل طبی اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔روایتی رسومات کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے۔قبائلی رہنماؤں کو قانون کی پابندی پر آمادہ کیا جائے۔نوجوانوں کو تعلیم اور آگاہی دی جائے۔بلوچستان ثقافت، غیرت، ادب اور مہمان نوازی کی سرزمین ہے۔ مگر جب روایت انسان کو نقصان پہنچانے لگے تو اصلاح ناگزیر ہوجاتی ہے۔ نوکنڈی کا واقعہ اسی اصلاح کا نقط آغاز ثابت ہوسکتا ہے.اگر ریاست اور عوام دونوں سنجیدگی سے قدم اٹھائیں۔
بلوچستان#چربیلی#نوکنڈی#روایتی رسم #انسانی حقوق#قبائلی نظام #دھکتے کوئلے
#پاکستان خبریں #چاغی انصاف#پولیس کارروائی#ثقافتی روایت #سماجی مسائل #تشدد کے واقعات #مقامی جرگہ#


Comments
Post a Comment