افغانستان میں سرِعام سزائے موت۔ایک انسانیت سوز عمل
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو دہائیوں سے جنگ، سیاسی عدم استحکام اور سماجی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ اس کے باوجود، وہاں کے عوام امن، انصاف اور انسانی وقار کے مستحق ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں سرِعام سزائے موت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے انسانی حقوق کی عالمی سطح پر شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ عوام کے سامنے پھانسی، سنگسار یا دیگر سخت سزاؤں کا نفاذ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ انسانی نفسیات اور سماجی ڈھانچے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔سرِعام سزائے موت کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے ایک سفّاک اور خوفناک عمل کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کا مقصد جرم کو روکنے کے بجائے خوف پھیلانا اور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ افغانستان میں جب کسی مجرم کو ہزاروں لوگوں کے سامنے بیچ چوراہے پر قتل کیا جاتا ہے، تو یہ صرف ایک سزا نہیں بلکہ پوری قوم کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایسے مناظر سے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں پر ناقابلِ تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ تشدد کو معمول سمجھنے لگتے ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے تشدد کا ایک نیا سلسلہ جنم دیتا ہے۔
خوف اور تشدد کی حکمرانی: عوامی پھانسیوں کے منفی اثرات
بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق، ہر شخص کو منصفانہ سماعت، وکیل تک رسائی اور اپیل کے پورے حق کے ساتھ مکمل عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ لیکن افغانستان میں کئی مرتبہ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں عدالتوں کی مکمل کارروائی کے بغیر ہی سزائیں نافذ کر دی جاتی ہیں۔ یہ عمل انصاف کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عدالتی نظام کمزور اور سیاسی دباؤ زیادہ ہو، وہاں سرِعام سزائے موت مزید ناانصافی اور استحصال کو بڑھا سکتی ہے۔
افغانستان میں سرِعام سزائے موت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ خواتین، کمزور طبقات اور اقلیتوں کے لیے اضافی خطرہ بن جاتی ہے۔ کئی بار ایسے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جو ثبوت سے عاری ہوتے ہیں، اور روایتی دباو?، بدلے کی کارروائی یا جھوٹے مقدمات کے ذریعے لوگوں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں انصاف کا تصور ختم ہوتا جاتا ہے اور خوف و ہراس معاشرتی ترقی کو روک دیتا ہے۔دنیا بھر میں سرِعام سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بے شمار تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سخت سزاؤں سے جرائم کم نہیں ہوتے، بلکہ عدل اور تعلیم وہ عناصر ہیں جو معاشروں کو بہتر بناتے ہیں۔ افغانستان جیسے ملک کو بھی ضرورت ہے کہ وہ تشدد کے بجائے انصاف، آگاہی اور اصلاحات کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارے۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرِعام سزائے موت نہ صرف انسانیت سوز ہے بلکہ ایک ترقی پذیر معاشرے کے لیے رکاوٹ بھی ہے۔ افغانستان کے عوام کو عزت، انصاف اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ خوف اور تشدد مسلط کرنے کی۔


Comments
Post a Comment