چین میں سابق سینیئر بینکر پر کرپشن ثابت ہونے کی وجہ پھانسی دے دی
چین نے ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ حال ہی میں ملک کے ایک سابق سینیئر بینکر کو کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور بھاری رشوت لینے کے الزامات میں سزائے موت دے دی گئی۔ یہ فیصلہ نہ صرف چین کی داخلی سیاست اور عدالتی سختیوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کے معاشی اور عالمی اثرات بھی خاصے گہرے ہیں۔ چین میں کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کوئی نئی بات نہیں، لیکن کسی اعلیٰ درجے کے بینکر کو پھانسی دینا عالمی سطح پر بحث کا باعث بنا ہے۔اس فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ چین کی اینٹی کرپشن مہم کا تسلسل ہے یا پھر نظام ریاست کی جانب سے ایک ڈرانے والی مثال؟ کیا ایسے اقدامات واقعی کرپشن کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں، یا اس کے پیچھے سیاسی، معاشی یا طاقت کی رسہ کشی موجود ہے؟ ان تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے اس کیس کا پس منظر، جرم کی نوعیت، چین کے قانونی نظام، اور اس فیصلے کے ممکنہ اثرات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
چین کی اینٹی کرپشن مہم اور پالیسی
چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 سے کرپشن کے خلاف ایک وسیع مہم شروع کی جسے عام طور پر ”ٹائیگر اینڈ فلائی“ (یعنی بڑے مگرمچھ اور چھوٹی مکھیاں) پالیسی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد چھوٹے ملازم سے لے کر بڑے حکومتی افسر تک سب کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔
اس مہم کے تحت
ہزاروں سرکاری اہلکاروں کو سزا ہو چکی ہے
کئی وزرا، گورنر اور فوجی افسران پابندِ سلاسل ہیں
مالیاتی شعبے میں بڑے پیمانے پر چھان بین کی گئی
یہ بینکر بھی اسی مہم کا ایک حصہ ثابت ہوئے۔ چین کا مؤقف ہے کہ ان اقدامات سے کرپشن قابو میں آئی ہے اور حکومتی اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھا ہے۔ لیکن عالمی تنقید یہ ہے کہ بعض اوقات سیاسی مخالفین کو بھی اسی قانون کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انسانی حقوق اور چین کا مستقبل
چین کی حکومت کا ماننا ہے کہ کرپشن ملک کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے، اور اسے جلد اور سخت طریقے سے ختم کرنا ضروری ہے۔ دوسری جانب یہ بحث بھی جاری ہے کہ آیا موت کی سزا کسی ملک کو حقیقی طور پر کرپشن سے پاک کر سکتی ہے یا نہیں۔بہت سے انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کو مضبوط کرنا، نظام کو شفاف بنانا اور اداروں کو خود مختار کرنا زیادہ اہم ہے، جب کہ سخت سزائیں وقتی خوف تو پیدا کرتی ہیں مگر پائیدار حل نہیں ہوتیں۔چین اس فورسفل پالیسی کو اپنی معاشی حکمتِ عملی کا لازمی حصہ سمجھتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک معاشی دباؤ اور عالمی مقابلے سے گزر رہا ہے۔سابق بینکر کی پھانسی چین کے لیے ایک نئی نہیں بلکہ قائم شدہ پالیسی کا تسلسل ہے۔ تاہم یہ کیس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ چین کرپشن کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سزا چین کے عوام، اداروں اور بین الاقوامی برادری کے لیے ایک سخت پیغام ہے کہ ملک اپنی مالیاتی سالمیت کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے۔
یہ فیصلہ درست ہے یا غلط، اس پر بحث جاری رہے گی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قدم نے چین کے عدالتی اور سرکاری نظام کی سختی، طاقت اور فیصلہ کن عمل کو دنیا کے سامنے ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔

Comments
Post a Comment