دنیا بھر 21 ہزار 647 پاکستانی جیلوں میں قید یا زیر سماعت ہیں
ایوانِ زیریں کی جانب سے وزیرِ خارجہ کی طرف جمع کروائے گئے تحریریجواب کے تحت پاکستانی شہریوں کی غیر ملکی جیلوں میں موجودگی کی تازہ صورتحال روشن ہوئی ہے۔ اس جواب کے مطابق دنیا بھر میں مقیم پاکستانی شہریوں کی کل تعداد 21 ہزار 647 ہے جو مختلف ممالک کی جیلوں میں قید یا زیر سماعت ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ملک کی بیرونی شہریت رکھنے والے افراد کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کارکردگی اور قونصلر امداد کی ترجیحات کی سمت بھی واضح کرتے ہیں۔
بھارت میں 738 پاکستانی شہری قید ہیں۔
سب سے زیادہ توجہ بھارت میں قید پاکستانی شہریوں کی صورتحال پر مبذول ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے تحریری جواب کے مطابق بھارت میں 738 پاکستانی شہری قید ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں وہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان افراد کو کس قسم کے جرم کی بنا پر سزا دی گئی یا زیرِ سماعت مقدمات کی نوعیت کیا ہے۔ اس بنیادی خامی کی وجہ سے مقامی سطح پر الزام کی نوعیت یا عدالتی عمل کی شفافیت پر سوالات قائم رہتے ہیں۔ میڈیا اور خارجہ دفاتر کے درمیان معلومات کی فراہمی میں یہ فرق دراصل دو طرفہ شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے تاکہ عوامی اعتماد برقرار رہے اور متعلقہ بشری اور قانونی حقوق کا درست انداز سے تحفظ کیا جا سکے۔
سعودی عرب میں 10 ہزار 745 افرادجیلوں میں بند ہی
دوسری بڑی تعداد سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہریوں کی ہے؛ وہاں 10 ہزار 745 افراد مختلف جرائم کی بنا پر جیلوں میں بند ہیں۔ سعودی عرب میں قید ہونے والے افراد کی صورتحال دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے: کچھ پاکستانی شہری سزا یافتہ ہیں جبکہ بیشتر مقدمات ابھی سماعت کے مرحلے میں ہیں یا زیرِ سماعت ہیں۔ اس صورتحال کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے بیچ عدالتی نظام اور قونصلر امداد کی رسائی کی نوعیت پر مسلسل نگاہ رکھنا ضروری ہے تاکہ جیلوں میں قید افراد کے حقوق کی پاسداری یقینی بنائی جا سکے اور قانونی طریقہ کار کی مکمل پیروی ہو سکے۔غیر ملکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی فلاح و بہبودپر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔
ان اعداد و شمار سے ایک واضح تصویر ابھرتی ہے کہ پاکستان کی قانونی اور انسانی ہمدردی کی پالیسیوں کو بیرونِ ملک مقیم شہریوں کی حالتِ قید کی بہتر دیکھ بھال اور واپسی کے عمل میں متوازن طور پر بروئے کار لانا ضروری ہے۔ جب ہم دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی مجموعی تعداد اور ان کی حرجی صورتحال کا اندازہ کرتے ہیں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ خارجہ امور کی ذمہ داریاں محض سیاسی بیانیوں تک محدود نہیں رہتیں؛ انہیں عملی اقدامات کی صورت میں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ترجیحی فریم ورک کے تناظر میں پاکستان کو غیر ملکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے طریقوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ فلاح و بہبود کے پروگرام نہ صرف انسانی حقوق کی پاسداری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں بلکہ ملک کی بدنامی اور بین الاقوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی منفی رجحانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قونصلر معاونت کا معیار بہتر بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات میں شامل ہیں:معلومات کی فوری اور شفاف فراہمی: ہر ملکی جیل میں قید پاکستانی شہریوں کی تفصیل، جرم کی نوعیت، عدالتی کارروائی کی صورتحال، سزا کی مدت یا معافی کے امکانات کی تازہ معلومات کی باقاعدہ ترسیل۔ بھارت کے معاملے میں چونکہ جرم کی نوعیت کی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں، اس پر عمل درآمد کی سطح بڑھانا اہم ہوگا تاکہ عوامی اعتماد قائم رہے۔قونصلر مداخلت کی باقاعدہ فریم ورک: ہر فرد کی قانونی مدد، وکالت کی سپورٹ، ترجمانی کی سہولتیں، اور مقدمات کی نگرانی کے لیے روزانہ کی سطح پر قونصلر عملہ کی موجودگی کو یقینی بنانا۔ سعودی عرب میں قیدیوں کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے مقامی عدالتی عمل میں استدلال کی مدد، اور سزا یافتہ یا زیرِ سماعت قیدیوں کی حقوق کی حفاظت کو ترجیح دینا۔
عدالتی نظام سے ہم آہنگی: پاکستانی شہریوں کی حتمی سزاؤں کی معلومات کے حصول کے لیے عین وقت پر متعلقہ معلومات کی فراہمی، مقدمات کی مدت، عدالتوں کی کارکردگی، اور قانونی معاونت کی موثر رسائی کو یقینی بنانا۔ یہ عملی قدم بیرون ملک قید پاکستانیوں کی واپسی عمل کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں
انسانی بنیادوں پر رویہ اپنانا: جیلوں میں قید پاکستانیوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی مثلاً صحتِ عامہ کی سہولتیں، خوراک، رہائش، اور ویکیسن پروگرامز کی دستیابی کی نگرانی۔ جب انسانی حقوق کی پاسداری کی بات ہو تو یہ پہلو نہایت اہم ہیں۔
سزا مکمل ہونے کے بعد پاکستانی کی وطن واپسی کے عمل کو ہموار بنایا جائے۔
واپسی اور بازآبادکاری کی حکمتِ عملی: قید کے دوران یا سزا مکمل ہونے کے بعد پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے عمل کو ہموار بنانا، واپسی پر ابتدائی مدد کی فراہمی، خاندانوں سے رابطے کی سہولت، اور دوبارہ سماجی و اقتصادی سطح پر ادارہ جاتی مدد کی فراہمی کی عملی منصوبہ بندی۔معلوماتی شفافیت کی تقویت: میڈیا اور عوامی سطح پر اعداد و شمار کی درستگی کی فراہمی، تاکہ افواہوں کی بجائے حقیقت پر مبنی معلومات عام لوگوں تک پہنچیں۔ خاص طور پر بھارت جیسے پڑوسی ملک کے معاملے میں جہاں معلومات کی عدم فراہمی اکثر سوالات کا مرکز بنتی ہے۔اسی طرح کی تجاویز سے نہ صرف بیرون ملک پاکستانی شہریوں کی حقوق کی حفاظت ممکن ہوتی ہے بلکہ وطن واپس آنے والے افراد کی بہبود پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی سُپرنیشنز کو مضبوط کرنا ضروری ہے تاکہ قونصلر خدمات کی سطح بلند تر ہو اور عدالتی عمل کی شفافیت ممکن بن سکے۔علاوہ ازیں ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مقدر پر نظر رکھنا اور ان کی قانونی امداد کو ترجیحی فریم ورک میں شامل کرنا زیادہ اہم ہے۔ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود، ان کے حقوق کی حفاظت، اور وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں مل کر پاکستان کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کی ہمہ جہت بحالی کا حصہ بنتی ہیں۔ مختصر طور پر کہا جائے تو تحریری جواب میں سامنے آنے والے اعداد و شمار نے یہ دکھایا کہ پاکستانی شہریوں کی غیر ملکی جیلوں میں موجودگی ایک پیچیدہ مگر حل طلب مسئلہ ہے جس پر زیادہ شفافیت، بہتر معلومات کی فراہمی، اور مضبوط قونصلر امداد کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ بھارت کی صورتحال میں جرم کی نوعیت کی عدم وضاحت اور سعودی عرب میں قیدیوں کی صورتحال کی متغیر نوعیت ایسی حقیقتیں ہیں جن پر عمل در آمد کی سطح کو بلند کرنے کی فوری ضرورت ہے تاکہ حقوقِ انسانی کی پاسداری اور قانونی مدد کی معیاری سطح یقینی بن سکے۔ اگر ہم انہیں مسلسل ترجیحی پالیسی بنائیں تو نہ صرف قید میں موجود پاکستانی شہریوں کی حالتِ زار بہتر ہوگی بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی وطن واپسی کا عمل بھی زیادہ موثر، شفاف اور بااعتماد بن سکے گا۔



Comments
Post a Comment